Latest Posts

ہم اپنے بچوں کو ضائع کر رہے ہیں۔


آئن سٹائن نے ایک بار کہا تھا، جو معلومات ہم بہت معمولی سی کوشش سے ایک دو بٹن دبانے پر فوراً حاصل کر سکتے ہیں، اسے اپنے دماغ میں اکٹھا کرنا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ دماغ کو اس سے زیادہ بہتر کام کے لئے استعمال کرنا چاہئیے، اور وہ کام ہے تخلیقی، تنقیدی اور منطقی انداز فکر کا حصول۔

دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اگر ہم اپنے دماغ میں بے تحاشا معلومات اکٹھی کرنے کے باوجود، تخلیقی انداز کے ساتھ کچھ نیا سوچنے سے قاصر ہیں، تو ہم اپنے دماغ کا شاید ایک فیصد بھی استعمال نہیں کر رہے۔ یعنی انسانی دماغ کو صرف یادداشت کے لئے استعمال کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص بھنڈیاں کاٹنے کے لئے تلوار کا استعمال کرے، یا مچھر مارنے کے لئے بندوق چلائے۔

آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک زمانہ تھا لوگ کاغذ پر حساب کتاب کرتے تھے، ضرب و تقسیم، جزر، مربعہ، زمین کی پیمائش وغیرہ بہت محنت طلب کام ہوتا تھا۔ بچوں کو پہاڑے، مسئلے اور الگورتھم کا چارٹ وغیرہ زبانی یاد کروائے جاتے تھے۔ لیکن اب کیلکولیٹر اور جدید ترین ایپس اور سافٹ وئیرز کے آنے کے بعد ان سب کو ایک غیر ضروری مشقت سمجھا جاتا ہے۔ (اگرچہ ہمارے ہاں ابھی ایسا نہیں ہے۔ ہمارے بچے ابھی بھی مرغے بن کر پہاڑے یاد کر رہے ہیں)

آپ یقین کیجئے، کیمسٹری کے تمام فارمولے کیمسٹری کے بڑے سے بڑے سائنسدان کو بھی زبانی یاد نہیں ہوں گے۔ وہ بھی اپنے ساتھ ڈائریاں اور نوٹس رکھا کرتے تھے۔ تحقیق کے دوران جب ضرورت پیش آتی، وہاں سے دیکھ لیتے تھے۔ جبکہ مجھے یاد ہے کہ ہمارے اساتذہ ڈنڈے مار مار کر اور کان پکڑوا کر ہمیں یہ سب یاد کروایا کرتے تھے۔ ہر وقت ایک خوف سر پہ سوار رہتا تھا۔ ہماری بہت ساری انرجی ان فضول کاموں میں ضائع ہو جاتی تھی۔

میرا ایک کلاس فیلو تھا۔ اسے علامہ اقبال کا شکوہ، جواب شکوہ جیسی کئی طویل نظمیں زبانی یاد تھیں اور ہم بڑے رشک سے اس کی طرف دیکھا کرتے تھے۔ اب پتہ نہیں اسے عملی زندگی میں اس چیز کا کوئی فائدہ ہوا یا نہیں۔ کبھی ملاقات ہوئی تو ضرور پوچھوں گا۔

ہسٹری میں ہونے والے اہم واقعات کی تاریخیں یاد کرنا نرا عذاب ہوتا تھا۔ ذہن میں گڈ مڈ ہو جاتی تھیں۔ جس سے نہ صرف مار پڑتی تھی بلکہ امتحان میں نمبر بھی ضائع ہو جاتے تھے۔

ملکوں کا رقبہ، محل وقوع، درآمدات اور برآمدات وغیرہ، یہ سب یاد رکھنا ناممکن کی حد تک مشکل لگتا تھا۔ اب گوگل میپ اور وکی پیڈیا استعمال کرتے ہیں، تو نقصان کا ایک احساس ضرور ہوتا ہے کہ ہمارا کتنا وقت اور توانائی لاحاصل کاموں میں ضائع کر دی گئی۔ وہ زندگی کے قیمتی ترین دن تھے، لیکن بے کار ترین مشقت میں ضائع ہو گئے۔

قائد اعظم کے چودہ نکات پر چودہ سو بار مار کھائی ہو گی، لیکن آج تک یاد نہیں ہوئے۔ اور نہ ہی کبھی یہ سمجھ آئی کہ انہیں زبانی یاد کرنا اتنا ضروری کیوں تھا؟؟

لیکن بہرحال جو ہو چکا، سو ہو چکا۔ ماضی پر افسوس کرنے کی بجائے، اس سے سیکھنا چاہئیے۔ اب چونکہ معلومات کے ذخائر تک رسائی دن بدن آسان ہوتی جا رہی ہے۔ زبانی یاد کرنے والا کلچر اب دنیا میں تبدیل ہو رہا ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے بارے میں اپنے نظریات کو اپ ڈیٹ کریں۔ نئے دور کے کمپیٹیشن کو سمجھیں۔ اپنے بچوں کو ان کے دماغ کا بہترین استعمال سکھائیں۔ جو معلومات ہماری جیب میں پڑے سمارٹ فون میں چار یا پانچ کلکس کی دوری پر ہے، اسے یاد کروانے پر ہی سارا فوکس بچوں کی اہم ترین ذہنی صلاحیتوں کو ضائع کر دینے کے مترادف ہے۔

ہاں اگر کوئی بہت ضروری انفارمیشن ہے، جسے کسی خاص تصور یا نظریے کو سمجھنے کے لئے دماغ میں رکھنا ضروری ہے، تو اس حد تک تو ٹھیک ہے۔ لیکن بچوں کو بالکل رٹا مارنے والی مشین میں تبدیل کر دینا، نہ صرف ان بچوں کے ساتھ ظلم ہے، بلکہ اس اپروچ کے ساتھ ہم کبھی بھی دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

ہمارا دس پندرہ ہزار کا موبائل ہزاروں کتابیں ذخیرہ کر سکتا ہے۔ ہم ایک مکمل لائبریری اپنی جیب میں رکھ سکتے ہیں۔ ڈیٹا کنکشن آن ہے تو معلومات کا سمندر چند سیکنڈز کی دوری پر ہے۔

لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم ترین تخلیق یعنی انسانی دماغ کو ڈیٹا سٹور کرنے کے لئے نہیں بلکہ ڈیٹا تخلیق کرنے کے لئے استعمال کیجئے۔ اپنے بچوں کو پرانا یاد کرنا نہیں، بلکہ نیا سوچنا سکھائیے، موازنہ کرنا سکھائیے، انہیں تنقید کرنا سکھائیے۔ اور آخری بات یہ کہ انہیں طوطے کی طرح رٹے رٹائے جواب دہرانے والا نہیں، بلکہ جیتے جاگتے انسان کی طرح سوال پوچھنے والا بنائیے۔ شکریہ 

(شعیب اصغر)

MAGE ATTRIBUTION: