Latest Posts

Defensive Mode (ڈیفینسو موڈ)

فرانسیسی لکھاری موپساں کی ایک مشہور زمانہ کہانی ہے جس کا عنوان ہے "رسی کی ٹکڑا". ہیوبرٹ نامی شخص پر جب چوری کا جھوٹا الزام لگتا ہے تو وہ پولیس کے سامنے اس الزام کو رد کر دیتا ہے۔ پولیس اسے چھوڑ دیتی ہے۔ وہ چونکہ ایک غریب شخص ہوتا ہے اسے لگتا ہے کہ لوگ اسے اب بھی چور ہی سمجھ رہے ہوں گے۔ اس لئے وہ ہر شخص کو اپنی صفائی دیتا ہے۔ بار بار اپنے بے گناہ ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ کوئی نہ بھی پوچھے تو بھی اسے بتاتا ہے کہ میرے اوپر جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔ راہ چلتے لوگوں کو روک روک کر اپنی خالی جیبیں دکھاتا ہے۔ حلف اٹھاتا ہے۔ اپنے صاف شفاف ماضی کے حوالے دیتا ہے۔ قسمیں کھاتا ہے کہ میں نے چوری نہیں کی۔ اس کی انہی غیر ضروری صفائیوں اور وضاحتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو کوئی اسے معصوم سمجھتا تھا، اب وہ بھی اس پر شک کرنے لگتا ہے۔ لوگ اس کا سوشل بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے وہ بیمار ہو جاتا ہے اور بالآخر بستر مرگ پر بے یار و مددگار پڑا اپنی جان دے دیتا ہے۔

یہ کہانی ہمارے معاشرے پر بالکل صادق آتی ہے۔ ہم بھی اجتماعی طور پر مسٹر ہیوبرٹ ہی کی طرح Defensive Mode پہ لگے ہوئے ہیں۔ یہاں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ ہو جائے ہمیں فوراً لگنا شروع ہو جاتا ہے کہ ہمارے خلاف کوئی پروپیگنڈہ ہو رہا ہے۔ کوئی ہمیں پھنسانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ پاکستان کو، اسلام کو یا مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوئی سازش ہے۔ اس لئے ہم فوراً میدان میں اتر آتے ہیں اور طرح طرح کی صفائیاں اور وضاحتیں دے کر معاشرے کے ماتھے پر لگے اس داغ کو صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ ضروری نہیں ہوتا۔ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ برائی سے پاک نہیں ہوتا۔ ایک نارمل معاشرے میں رہنے والے لوگ برائی کے وجود کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد اس کا مطالعہ کرتے ہیں، پھر اس کے اسباب و تدارک کے بارے میں سوچتے ہیں، جبکہ ایک ابنارمل معاشرے میں لوگ ہر وقت اپنی پوزیشن کلئیر کرنے کی فکر میں رہتے ہے۔ وہ اچھا بننے سے زیادہ اچھا نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان معاشروں میں منافقت اور دوغلا پن بہت زیادہ ہوتا ہے. ہمارے معاشرے میں ہونے والا ہر بدترین عمل ہمیں اپنے خلاف سازش لگتا ہے اور اس عمل کی مذمت کرنے کی بجائے ہماری تمام تر کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح خود کو کلین چٹ دے دی جائے۔ ہمارے ملک پر یا ہم مسلمانوں پر کوئی حرف نہ آ جائے۔ جو برا ہوا ہے اس پر بات کرنے کی بجائے جو اچھا ہوتا ہے اس کو اجاگر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہیوبرٹ کی طرح ہر کسی کو خالی جیبیں دکھانے اور اپنے صاف شفاف ماضی کی مثالیں دینے لگتے ہیں۔ حالانکہ برائی کی کوئی صفائی نہیں ہوتی اور اچھائی خود اپنا اشتہار ہوتی ہے۔

اس لئے میرے عزیز ہم وطنو! بہت زیادہ Defensive رہنے کی بجائے تھوڑا سا Creative ہو کر سوچنا شروع کر دیں۔ برائی چاہے ہمارے اپنے لوگوں میں ہی کیوں نہ ہو، تھوڑا دل بڑا کر کے اس کے وجود کو تسلیم کر لیا کریں۔ خوامخواہ کی غیر ضروری صفائیوں اور پردے داریوں سے گریز کیا کریں۔ انسانوں کی انفرادی برائیوں کی پردہ پوشی کا حکم ہے۔ جبکہ اجتماعی گناہ اور خرابیوں کو اجاگر کرنے والے اور ان پر بحث و تنقید کرنے والے معاشرے ہی آگے بڑھتے ہیں۔ نرگسیت اور تفاخر کا احساس خود احتسابی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ آپ مان لیا کریں کہ ہماری قوم کے اندر یہ یہ خامیاں ہیں۔ ہم انہیں دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب تک اپنی خرابیوں کو مانیں گے نہیں، انہیں دور کیسے کریں گے؟ اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ تو ہم اگلے دس ہزار سال بھی یہیں کھڑے رہیں گے۔

اور آخری بات یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نہ تو اس ملک کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی ہمارے دین کو۔ آپ ان کے خلاف ہونے والی سازشوں کی فکر نہ کیا کریں۔ دشمن کا تو کام ہی سازشیں کرنا ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی سازشیں اتنی ہوتی نہیں ہیں جتنی ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے دشمنوں کے پاس کرنے کے لئے اور بھی بہت سے کام ہیں۔ وہ ہماری طرح فارغ تھوڑی ہیں؟ آپ بس غیر ضروری لفاظی کی بجائے اپنے کردار کو مضبوط بنائیں۔ ناقابل تسخیر بنائیں۔ یہ ملک بھی ہمیشہ رہے گا اور اسلام کو بھی تاقیامت کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی۔ ان دونوں کو اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ صرف اور صرف ہمارے اپنے کردار سے ہے۔ اور بلاشبہ کردار کی طاقت گفتار کی طاقت سے ہزاروں گنا زیادہ ہوتی ہے۔

(شعیب اصغر)