Latest Posts

ذرا ‏بولئے ‏


ہمارے معاشرے میں جب بھی کچھ برا اور غلط ہوتا ہے تو ایسے موقع پر عام طور چار اقسام کے لوگ سامنے آتے ہیں۔ 

1. ایک تو وہ ہوتے ہیں جو اس غلط کو غلط ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ یہ اپنے سیاسی اور مسلکی تعصبات کا شکار اور ایک دائرے کی سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی میں جذبات اور نرگسیت کا کردار زیادہ ہوتا ہے۔ یہ اپنے نظریے کے ساتھ وفادار ہوتے ہیں (چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو)۔ اور اس کو صحیح اور باقی سب کو غلط ثابت کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے بعض اوقات مخلوق خدا کے حقوق کو بھی پامال کر جاتے ہیں۔

2. دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی گفتگو کا آغاز ہی 'اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ اور لیکن' سے ہوتا ہے۔ یہ ایک برائی کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ویسی ہی ایک اور برائی کو دلیل کے طور پر لے آتے ہیں۔ ان کی گفتگو اکثر اس نوعیت کی ہوتی ہے۔
 
"یہ درست ہے کیونکہ فلاں نے بھی ایسے کیا تھا اور یہ غلط ہے لہذا یہ ٹھیک نہیں اگر فلاں نے یوں کیا تھا مگر یہ غلط ہے اور یہ ٹھیک نہیں لیکن غلط بھی نہیں ہے۔ اگر یہ اتنا ٹھیک ہے لیکن اتنا غلط بھی ہے۔"
 
یہ اپنی مضحکہ خیز باتوں سے سب کو خوش رکھنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ ان کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ کس طرف ہیں۔ یہ گوشت کھاتے ہیں یا سبزی۔ یہ خون پینا پسند کرتے ہیں یا خون دینا۔

3. تیسری قسم کے لوگ وہ ہوتے جو "صم، بکم، عم" کی تصویر ہوتے ہیں۔ غیر جانبدار رہنا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ معاشرے میں ظلم و انتشار جتنا مرضی بڑھ جائے ان کی زبان نہیں رینگتی۔ یہ احساس کمتری اور خوف و دہشت میں مبتلا ہوتے ہیں اور غیر جانبدار رہ کر خود کو محفوظ تصور کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اصل میں تماش بین مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔ سب کچھ دیکھ تو رہے ہوتے ہیں لیکن سوچنے اور بولنے کو ایک کار لاحاصل سمجھتے ہیں۔

4. چوتھی اور آخری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں۔ جو پہلی قسم کے لوگوں کی طرح اپنے نظریات میں بالکل واضح ہوتے ہیں۔ انہیں بھی جو جیسا لگتا ہے اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن یہ جذبات کی بجائے عقل و شعور کو مقدم رکھتے ہیں۔ یہ غلط کو غلط اور درست کو درست کہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ زمینی حقائق اور اپنی کمزوریوں سے آگاہ ہوتے ہیں۔ نرگسیت کو ناپسند کرتے ہیں۔ منطقی انداز میں سوچتے ہیں۔ ہر حال میں انسانی حقوق کا احترام کرتے ہیں۔ اور معاشرے میں امن و آشتی اور ارتقائی عمل کی حمایت کرتے ہیں۔

میرے خیال میں ان چار اقسام میں سب سے زیادہ خطرناک دوسری قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کی پوزیشن واضح نہیں ہوتی۔ یہ چمگاڈر کی طری کبھی پرندوں میں جا کے بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی چوپایوں کو اپنی حمایت کا یقین دلا رہے ہوتے ہیں۔ غالباً انہی کے بارے میں کسی نے کہا تھا،
- اور پروہنا پکھا رہندا، جیہڑا دو گھراں دا سانجھا
اکو پاسا رکھ لے ہیرے، یا کھیڑے یا رانجھا

ان کی منافقت اور گومگو کی پالیسی اصل میں برائی کو ہی تقویت پہنچا رہی ہوتی ہے۔

تیسری قسم کے لوگ بیچارے ویسے ہی اللّٰہ میاں کے گائیں ہوتے ہیں۔ یہ بے حد معصوم اور بے ضرر ہوتے ہیں۔ ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ محض تاریخ کا کچرا ہوتے ہیں۔ انسان کے شعوری ارتقاء میں ان کا حصہ زیرو پرسینٹ ہوتا ہے۔ یہ محض کھانا ڈالنے اور نکالنے والی مشین ہوتے ہیں۔

آپ کو میرا یہ مشورہ ہے کہ جتنا جلدی ممکن ہو سکے آپ پہلی یا چوتھی قسم کے لوگوں میں شامل ہو جائیے۔ اپنی سوچ کو واضح کیجئے۔ صاف صاف بات کیجئے۔ اس وقت ہمارے معاشرے کو بولنے والوں سے زیادہ نقصان خاموش رہنے والے اور اگر مگر چونکہ چنانچہ والوں کی وجہ سے بھگتنا پڑ رہا ہے۔ کہیں ہم نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی حرمت کے نام پر نبی کے دین کو نقصان تو نہیں پہنچا رہے۔ ان کے نام پر ہونے والے ظلم اور فساد پر خاموشی بھی ان کی توہین ہی کے مترادف ہے۔ مخلوق خدا کو تکلیف دے کر کہیں خدا کو ہی ناراض نہ کر بیٹھیں۔ میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا دین رحمت کا دین ہے۔ اس کی نمائندگی شرپسند ہاتھوں سے چھین لیجئے۔ لہذا بولئے، کچھ بھی بولئے، اب نہیں بولو گے تو آپ کی نسلیں اس ملک میں پیدا ہونے پر پچھتائیں گی۔ 

(شعیب اصغر)